حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم

إنّ الحسين (عليه السلام) مصباح الهدى وسفينة النجاة

بے شک حسین علیہ السلام ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں

امام حسین (ع) کی ولادت کی مناسبت سے مبارک ہو:
اللہ تعالی کے کائنات انسانی پر بہت  احسان ہیں جن میں سے ایک بہت بڑا احسان کہ جس کے مقابلے میں کوئی اور احسان نہیں ہو سکتا وہ تخلیق وجود پیغمبر اکرم اور آنحضرت کی بعثت ہے۔ امت مسلمہ کو واقعا اس احسان عظیم کو درک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ تعالٰی کے اس احسان عظیم کے ساتھ ساتھ آل محمد کے وجود کی تخلیق بھی ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کی بدولت انسانیت اپنے کمال کی منزلیں طے کرتے ہوئے بعثت کے اہداف کو بھی سمجھ سکتی ہے اور ذات ذوالجلال کا قرب اور رضایت بھی پا سکتی ہے۔ آج تین شعبان کو آل محمد کے خامس آل عبا حضرت امام حسین (ع) اس دنیا میں تشریف لائے ہیں، آج کے دن پیجتن پاک کی تکمیل ہوئی، آج اس کی ولادت کا دن ہے کہ جس کے بارے میں سیدالانبیاء نے جو فرمایا اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ وہ نہ صرف مجھ سے ہے بلکہ میں بھی اس سے ہوں، وہ اور اس کے بھائی ایسے ہیں کہ کھڑے ہوں تو بھی امام ہیں اور بیٹھے ہوں تب بھی امام ہیں۔ وہ اور اس کا بھائی صرف ایسا نہیں کہ ان کی عظمت اور بلندی صرف اس دنیا میں واضح ہوئی ہے بلکہ وہ تو اتنے عظیم ہے کہ جنت میں بھی سید و سردار ہیں۔ اسی مناسبت سے سب مومنین و مسلمین کو  امام حسین (ع) کی ولادت کی مناسبت سے مبارک ہو۔

اولیاء خدا کی یاد اور محبت خدا کا حکم:
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے مخلص بندوں کا ذکر کیا ہے جن میں انبیاء کثرت کے ساتھ ہیں۔ انبیاء کے علاوہ بھی جو لوگ اپنی پاکیزہ فطرت پر باقی رہے ہیں اور بشریت و انسانیت کو منازل کمال تک پہنچانے میں کردار ادا کیا ہے، اللہ نے ان کا بھی  ذکر کیا  ہے۔ اس حوالے سے کبھی فرماتا ہے، “وَاذْکُرْ عِبٰـدَنَآ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ اُولِی الْیْدِیْ وَالْاَبْصَارِ” کبھی یوں فرماتا ہے، “وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ اِنَّـهُ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا” اور کبھی اللہ نے یوں فرمایا؛ “وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ”، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاقٰ علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام کا صرف یہی نہیں کہ ذکر کیا ہے بلکہ وَاذْکُرْ، وَاذْکُرْ، وَاذْکُرْ  کہہ کر ان کا  ذکر کرنے کا بھی حکم دیا۔ در اصل ان اولیاء خدا کا ذکر انسان کو کمالات کی منزلیں طے کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ باطل سے بچنے اور حق پر قائم  رہنے کے لئے آمادہ  کرتا ہے، اسی بنیاد پر پاکیزہ فطرت افراد ان اولیاء خدا کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل کر  حق کے قافلے اور کاروان کا حصہ بن جاتے ہیں۔

تین شعبان کس  امام کی ولادت کا دن؟
آج اس ولی خدا کی ولادت کا دن ہے کہ جس نے حضرت آدم کے ذکر کو، حضرت نوح  و ابراہیم و موسی و عیسی (ع) کے ذکر کو بچایا، ان کی سیرت کو انحراف سے بچایا، اللہ کے دین اسلام کو قیامت تک باقی رکھنے کے لئے بڑے بڑے فیصلے کئے۔ حق  کو زندہ کیا اور باطل کو شکست دی، اسی بنیاد پر یہ نعرہ و شعار، عالم انسانیت میں بعض آزاد فکر انسانوں کی زبانوں پر گونجنے لگا کہ:
حسینیت زندہ باد ہے  یزیدیت مردہ باد ہے
آج اسی حسین ابن علی کی ولادت کا دن ہے کہ جس کے بارے میں زیارت وارثہ  میں ہے؛ السَّلامُ عـَلَيـْكَ يا وارِثَ آدَمَ صـَفـُوةِ اللهِ، السَّلامُ عـَلَيْكَ يا وارِثَ نـوُحٍ نَبــِيِ اللهِ، السَّلامُ عـَلَيـْكَ يـا وارِثَ إبـراهيـمَ خـَليـلِ اللهِ ، السَّلامُ عـَلَيـْكَ يا وارِثَ موســى كـَليِم اللهِ، السَّلامُ عـَلَيـْكَ يـا وارِثَ عـيـسى روُحِ الله السَّلامُ عـَلَيْكَ يا وارِثَ مـُحـَمـّدٍ حـَبـيبِ اللهِ، السَّلامُ عـَلَيـْكَ يـا وارِثَ اَميرِ المُؤمِنينَ وَلَيِ اللهِ۔

ذکر امام حسین (ع) و ذکر حضرت یوسف (ع):
امام حسیں (ع) اس ہستی کا نام ہے کہ جس کا ذکر کرنا بھی ثواب، ذکر کو سننا بھی ثواب اور ذکر کروانا بھی ثواب ہے۔ یاحسین یاحسین کرنا، اپنے قلب و وجود و ہستی میں سیرت حسین کو لیکر آنا، وہ وسیلہ اور کشتی نجات ہے کہ جو بہت ہی جلد انسان کو تقرب خدا عطا کرتی ہے۔ ذکر حسین کی حکمت اور فلسفہ کو  سمجھنے کے لئے ہمیں سنت رسول اور قرآن مجید کی تعلیمات کو دیکھنا اور مطالعہ کرنا ہوگا۔ سنی عالم دین ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب کے یوسف ہیں، جبکہ  امام حسین (ع)، حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوسف ہیں۔ اللہ تعالٰی حضرت یعقوب کے یوسف کا ذکر اتنا زیادہ کرے جبکہ امت مسلمہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوسف کا ذکر کرنے سے کترائے اور گھبرائے تو ایسے تعلقِ غلامی کے دعویٰ پر لعنت ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں حضرت یوسف کا ذکر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، اگر دقت کریں تو معلوم ہوگا کہ  حضرت یوسف کے مندرجہ ذیل واقعات بیان ہوئے ہیں:

1۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی خواب کا ذکر۔ 
2۔ بھائیوں کے شکار کرنے کا ذکر۔
3۔ باپ کے ڈر اور خدشہ کا ذکر کہ بھیڑیا کھا جائے گا۔
4۔ جھوٹا خون لگانے کا ذکر۔ 
5۔ مصر میں بیچ دینے کا ذکر۔ 
6۔ بھائیوں کے ناروا سلوک کا ذکر۔ 
7۔ آپ سے جو گفتگو ہوتی ہے، ان کلمات کا ذکر۔
8۔ جنگل میں بے آباد کنویں میں گرانے کا ذکر۔
9۔ قافلے کے آنے کا ذکر۔ 
10۔ کنویں سے نکالے جانے کا ذکر۔
11۔ آپ کے جوان ہونے تک کا ذکر۔
12۔ عزیز مصر کی بیوی کے آپ پر فریفتہ ہونے کا ذکر۔
13۔ اس کے مطالبہ پر آپ کے بچ کر چلے جانے کا ذکر۔
14۔ قید کا  ذکر۔
15۔ خواب کی تعبیر بتانے کا ذکر۔

سوال یہ ہے کہ ان تمام تفصیلات سے احکام شریعت اور حلال و حرام کے کون سے احکام اخذ ہوتے ہیں۔۔۔؟ کیا ان سے نماز، روزہ، حج زکوٰۃ کی تعلیمات میسر آتی ہیں۔۔۔؟ انگلیاں کٹنے کے واقعے سے شریعت کے کتنے حلال و حرام، فرائض، واجبات اور سنتیں معلوم ہوتی ہیں؟ دراصل ان واقعات میں مذکور جزئیات سے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر، طہارت، استقامت، عظمت، شان اور مضبوطی کردار اور اللہ کی ذات پر مکمل اعتقاد اور یقین کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت یوسف نے ایک کافر اور بت پرست معاشرہ کو الٰہی اور توحیدی معاشرہ بنایا تو امام حسین نے اس وقت کے طاغوتی معاشرہ اور الٰہی اقدار سے منحرف معاشرہ کہ جس میں حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کیا جا رہا تھا، قیام کیا اور اسلام حقیقی کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔

میرا اللہ تو ہر اس سے محبت کر جو حسین سے محبت کرے:
امام حسین علیہ السلام کا جتنا ذکر ہوگا، اتنا پیغمبر اکرم خوش ہوں گے اس  لئے کہ اس حسین کا ذکر ہو رہا ہے، جسے  اللہ کا رسول  اپنے کندھے پر بٹھاتا تھا، جس  حسین کو سینے پر لٹاتا تھا، جس کے منہ میں زبان ڈال کر چساتا تھا، جس کو اپنا سوار بناتا تھا، بعید نہیں ہے کہ  پیغمبر اکرم  فرشتوں سے کہیں کہ میرا کلمہ پڑھنے والے میرے حسین کا ذکر سننے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، ذکر سن رہے ہیں، ذکر کر رہے ہیں اور مولا حسین جیسی اللہ کی عظیم نعمت کے آنے پر مل کر جشن منا رہے ہیں۔ سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے کہ امام حسین (ع) آئے اور آکر گود میں بیٹھ گئے، سامنے اصحاب کرام بھی موجود تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے امام حسین کے رخسار کا بوسہ لیا اور دعا کرتے ہوئے فرمایا؛ “اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُحِبُّہُ فَاَحِبَّہُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہ” میرے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر  اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت کر۔

اس واقعہ اور اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے امام حسین کی محبت کو صرف دل میں نہیں رکھا، بلکہ اپنی زبان کے ساتھ اظہار بھی کیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میرے اللہ تو بھی اس سے محبت کر جو حسین سے محبت کرے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) مولائے کائنات اور سیدہ زہراء کے گھر سے باہر تشریف لائے، اس حالت  میں کہ ایک کندھے پر حضرت امام حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت امام حسین کو اُٹھائے ہوئے تھے، جب سامنے اصحاب آئے تو   فرمایا، “ھَذَانِ اِبْنَایَ وَ اِبْنَا اِبْنَتِی”، یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ “اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُحِبُّہمَاُ فَاَحِبَّہمَاُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہمَا”، میرے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو ان دو سے محبت کرے، تو بھی اس سے محبت کر۔ پیغمبر اکرم امام حسن اور امام حسین کے بارے میں فرماتے تھے؛ “مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضُھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ” جس نے ان دو سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان دو سے بغض رکھا تو بھی اس سے بغض رکھ۔

مثلی لا یبایع مثلہ:
امام حسین (ع) نے سخت سے سخت حالات میں بھی دین خدا کی پاسداری کی ہے، اپنا، اپنے نانا اور بابا کی امت کا تعارف کروایا ہے۔ جس طرح خود ختمی مرتبت (ص) نے کئی مقامات پر امام حسین (ع) کا تعارف کروایا ہے۔ امام حسین (ع) نے بھی لوگوں کو انتہائی مہم مقامات پر اور مہم حالات میں بتایا ہے کہ میں کون ہوں۔؟ میں کس کا فرزند ہوں؟ میرا بابا کون ہے؟ میری ماں کون ہے؟ اور میں کس کا نواسہ ہوں؟ میں خاندان تطہیر سے ہوں، میری ہستی اور میری رگوں میں خاتون جنت کا خون ہے تو پھر “مثلی لا یبایع مثلہ” میرے جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔

امام حسین (ع) اور ہم:
کیا آج اپنے مولا امام حسین (ع) کی ولادت باسعادت کے دن ان کے ماننے والے ہر مسلمان کو، ہر مومن کو، دنیا کے اندر موجود مادیت پرستی، لوٹ مار، کرپشن، دہشتگردی، ظلم، بی دینی، استعمار کی غلامی، بی ہویتی، فقر، گدائی، ذلت و خواری اور اس طرح کی تمام پستیوں اور ان پستیوں میں غرق افراد کے سامنے ببانگ دہل نہیں کہنا چاہیئے کہ۔۔۔۔ مثلی لا یبایع مثلہ؟ میں حسینی ہوں، میں علوی ہوں، میں محمدی ہوں، میں نمازی ہوں۔ میرا اس زمانہ کا رہبر و پیشوا  امام خمینی، سید علی خامنہ ای اور سید حسن نصراللہ ہے۔

امام حسین کے حقیقی پیروکار زمانے کے یزید کی پابندیوں، دھمکیوں  اور سازشوں میں آنے والے نہیں ہیں، بلکہ زمانے میں امن کے داعی ہیں، حزب اللہ، پاسداران انقلاب اسلامی اور پاکستان کے غیور شیعہ ہمیشہ ایسے معاشرہ کی تشکیل میں کوشاں ہیں کہ جس میں انسانیت کا وقار ہو، اسلام محمدی کا پرچار ہو اور اسلام اموی کہ جس کے نمونے امریکہ و اسرائیل کی سرپرستی میں داعش اور القاعدہ وغیرہ کی شکل میں ہیں، ان سے انسانیت کو نجات دلائی جا سکے۔ جب یہ سطور لکھ رہا ہوں، تو خبر پڑھ رہا ہوں کہ شیطان بزرگ نے انقلاب اسلامی ایران کی فوج انقلاب اسلامی کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ یہ وہی سیاست ہے کہ جو ۶۱ ہجری میں یزید ابن معاویہ نے امام حسین (ع) کے خلاف استعمال کی تھی۔ ہمیشہ بقا اور کامیابی حق  کی ہے۔ آخر پر آج امام حسین (ع) کی ولادت کی مناسبت سے اپنے پیارے ملک پاکستان کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ اور ان دنوں میں ایران اسلامی میں سیلاب کے حوالے سے داخلی طور پر راہ حل اور امریکہ و غرب  کی سازشوں  کو ناکام بنانے میں اس قوم کو صبر، حوصلہ اور قربانی کا جذبہ رکھ کر امام حسین (ع) کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں